Bid'at is the way to go astray

فگدفھ

 

بدعت گمراہی کا راستہ ہے 

محمد ابوالبرکات قاسمی

مورخہ :3/اپریل 2021

ہر چیز موزوں ہوتی ہیں اپنی محل میں

کہیں  شیر بھی جوتا جاتا ہے  ہل  میں؟

یہ دنیا بہت ساری چیزوں سے مرکب ہے، اس کی جسمانی ساخت بھی ہے تو روحانی وجود بھی، دنیا کی جسمانی ساخت مادی چیزوں سے مرکب ہے اور اس کا روحانی وجود مختلف اصولوں اور احکام سے مرکب ہے، جو چیزیں مرکب ہوتی ہیں اگر ان کے اجزاء میں تبدیلی لے آئیں یا کمی زیادتی کردیں تو خود اس مرکب میں تغیر پیدا ہوگا اور اس کی خاصیت بدل جائے گی، اللہ نے جس طرح سورج، چاند ستاروں اور مختلف سیاروں سے اس دنیا کو مزین کیا اسی طرح اس میں ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے مختلف اصول اور احکامات بھی عطا کیے، سورج، چاند اور دیگر سیارے جو اپنی گردش گاہ میں رواں دواں ہیں، ذرا برابر بھی اپنے محور سے ہٹ جائیں تو دنیا تہس نہس ہوکر رہ جائے گی، اسی طرح ان احکامات کی ادائے گی میں ہم کوتاہی کریں یا ان کو بدل دیں (مثلاً حرام کو حلال، حلال کو حرام،جائز کو ناجائز، جائز کو واجب، فرض کو سنت یا سنت اور مستحبات کو فرض کے درجے میں گردانیں) تو ہماری کامیاب اور پر لطف زندگی ایک ناکام اور ذلت والی زندگی سے بدل جائے گی۔

آج کل ہمارے اوپر مختلف قسم کے حالات آرہے ہیں، ہم طرح طرح کے آزمائشوں سے دوچار ہورہے ہیں، اس کی وجہ صرف اور صرف ہم ہیں، ہم نے احکامات خداوندی میں تغیر و تبدل کرنے کی کوشش کی، روح شریعت کو ٹھیس پہونچایا، قرآن کریم کے تقاضے اور سنت رسول کی روحانیت کو نہیں سمجھا، یہ اسی کا ثمرہ ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ دنیا کے روحانی وجود جو احکامات خداوندی سے مرکب ہے، اس میں کمی بیشی کریں گے تو روحانی وجود متاثر ہوگا پھر رنگ برنگے حالات جیسے موب لینچینگ، این آر سی، کورونا مہاماری، مسجد کا زبردستی چھینا جانا، اذان پر پابندی حتی کہ قرآن کریم جو راہ زیست کے مکمل اصولوں سے لبریز ہے اس پر طعنہ کشی اور بہتان تراشیوں سے دوچار ہونا یقینی ہے۔

لہذا شریعت نے جس موقعے پر جو طریقے ہمیں دیے ہیں، انہیں طریقوں پر عمل پیرا ہونا کامیابی ہے، اس میں کمی بیشی یا رد وبدل گویا اللہ رب ذوالجلال کو یہ کہنا ہے کہ اس موقعے پر فلاں چیز واجب ہونی چاہیے تھی آپ نے اسے واجب نہیں کیا یا فلاں چیز حرام ہونی چاہیے تھی آپ نے اسے حلال کردیا وغیرہ، اور یہ بات یاد رکھیں اللہ سے جو اعتراض کرتا ہے پھر وہ جواب دینے لائق بھی نہیں رہتا، نماز پڑھنا کار ثواب ہے؛ لیکن جمعہ کے خطبے کے دوران نماز پڑھنا جائز نہیں(ڈبہ گھمانا تو بہرحال ناجائز ہوگا)، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی آنے پر درود پڑھنا ضروری؛لیکن اذان کے کلمات کے دوران مثلاً اشہد ان محمدا رسول اللہ کے جواب میں اشہد ان محمدا رسول اللہ کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت نہیں، لہذا اس کا اصافہ کرنا یہاں بدعت ہوگا_____ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو چھینک آئی تو انہوں نے السلام علیک کہا، اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک آدمی کو چھینک آئی تو انہوں نے الحمدللہ کہنے کے بعد والسلام علیٰ رسول اللہ کہا، اس پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم لوگ بھی حضور پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اور ہم بھی "الحمدللہ والسلام علیٰ رسول اللہ" کہ٬ سکتے ہیں، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ہمیں یہ نہیں سکھایا۔(ترمذی شریف حدیث نمبر 2738)، لہذا جس موقعے پر شریعت نے جو طریقہ دیا ہے اسی طریقے پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اپنی طرف سے کمی زیادتی کر کے اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب کو دعوت دینا اور دین میں تحریف کرنے کے مترادف ہے، اللہ ان چیزوں سے بچائے!

ایسا نہ ہو کہ جسے ہم دین سمجھ کر پوری زندگی نبھاتے رہے، مرنے کے بعد پتہ چلا کہ دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، پھر وہ ہمارے لیے وبال جان ثابت ہو۔

آپ کو بتاتا چلوں کہ شریعت کو پس پشت ڈال کر شادی بیاہ کے موقعے پر جن رسومات کو پابندی سے نبھایا جارہا ہے، یہ برائی پھیلنے کا ایک اہم سبب ہے، سب کے ذہن میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ ہمارے باپ دادوں نے ایسا کیا ہے اس لیے ہمیں بھی کرنا چاہیے، وہاں اگر آپ شریعت کی بات بولیں تو ان حضرات کے درمیان آپ ہی ایک بے وقوف سمجھے جائیں گے، وہ حضرات آنکھیں مون کر، پیر پر پیر چڑھا کر اور کوئی بیڑی اور کوئی سگریٹ کی چسکیاں لے لے کر خدا اور رسول کے خلاف فیصلے کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ اگر آپ سے کوئی مشورہ لیتا ہے تو آپ شریعت کے مطابق مشورہ دیں، کوئی آپ کو فیصل بناتا ہے تو شریعت کے مطابق فیصلہ کریں ورنہ اللہ کی پکڑ سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکتا، خدا را رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مضبوطی سے پکڑیں اور ان برائیوں کا خاتمہ مل جل کر کریں، معاشرہ کو صاف ستھرا بنائیں۔

شادی بیاہ کے رسموں میں جنتے پیسے خرچ ہوتے ہیں، یقینا اتنے پیسوں کا جمع کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اگر اس کے خلاف کوئی غریب آدمی آواز اٹھاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اس کی مجبوری ہے، کوئی مال دار شخص ان رسومات کے خلاف بولنے کی جسارت کرتا ہے تو اسے بخیل گردانا جاتا ہے، ہائے یہ معاشرہ کتنا پیچھے چلا گیا!

یہ بات تو شادی بیاہ میں غلط رسومات کی تھی، دین سمجھ کر جو بدعات اور خرافات میں ہم مبتلا ہیں، وہ بھی ناقابل بیان ہیں۔

آج کل چاروں طرف سے خبریں آرہی ہیں کہ فلاں جگہ اذان پر پابندی عائد کر دی گئی، فلاں جگہ مؤذن صاحب کو پیٹا گیا وغیرہ، کیا اس کی وجہ ہم نہیں ہیں؟ یقینا ہم ہی ہیں؛ کیوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں سے کترا کر اپنے آپ کو اڈوانس سمجھنے لگے، دین میں نئی نئی چیزیں ڈال دیں، غلط رسومات کو دین کا جزوِ لاینفک بنادیا، سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے لگ گئے، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ آج ہم جس ملک میں زندگی گزار رہے ہیں اسے اگر مسلم دشمن ملک کہہ دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، لہذا جو ضروریات زندگی ہے اس کو علی الاعلان نبھائیں کوئی روک نہیں؛ لیکن اگر خواہشات کے پیچھے زور دیا تو ظاہر ہے کہ ضروریات پر بھی پابندی لگ جائے گی۔

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے تو حضور پر درود بھیجنا واجب ہے؛ لیکن کیا مائک میں درود بھیجنا واجب ہے؟ چلیے تھوڑی دیر کے لیے مستحب مان لیتے ہیں؛ لیکن کیا اسلام کسی کو تکلیف میں ڈال کر ایک مستحب عمل کو انجام کے دینے کی ترغیب دیتا ہے؟ کیا سوئے ہوئے ہندو مسلم کا دل دکھا کر ان کی نیندیں خراب کر کے حضور پر درود بھیجنے سے حضور خوش ہوں گے؟

ہمارے کچھ بھائی فجر کے بعد بڑے ترنم اور نغمگی کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، اللہ انہیں اور ہمیں زیادہ سے زیادہ حضور پر درود بھیجنے کی توفیق عطا فرمائے؛ لیکن میرے بھائیکیا بغیر مائک کے درود پڑھنے سے ثواب میں کمی آتی ہے؟ اگر بار بار کسی ہندو بھائی کی تکلیف کا باعث بنیں گے تو یقینا اس کے دل میں اسلام کے تئیں نفرت پیدا ہو جائے گی، پھر وہ درود پر نہیں اذان پر پابندی کی بات کریں گے، لہذا ایسے بھائیوں سے پر خلوص گزارش ہے کہ از سر نو غور کریں کہ کیا مائک پر اشعار خوانی نعت گوئی مناسب ہے یا بغیر مائک کے بھی اسے انجام دیا جا سکتا ہے؟ داعیانہ زندگی گزارنا محمود ہے نہ کہ چِرانے والی زندگی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا "اخفض قلیلا"الخ کہ آپ ذرا تہجد کی نماز میں آہستہ تلاوت کریں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سوئے ہوئے لوگوں کو خلل نہ ہو۔گر قبول افتد زہے عزوشرف!

 

(نوٹ) یہ تحریر احقر نے  اپنی شادی کے دن لکھی تھی ، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کمی کوتاہی کو معاف فرمائے اور اس کا افادہ عام فرمائے!


No comments:

Post a Comment