خواب میں لا الہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ کہہ دیا تو؟

خواب میں لا الہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ کہہ دیا تو؟

 از قلم: محمد ابوالبرکات قاسمی


       سب سے پہلے ہم یہ جانتے ہیں کہ اسلام میں خواب کا حکم کیا ہے؟

     حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ "جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا" کیوں کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے شیطان کو یہ قدرت نہیں دی ہے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شکل اختیار کرکے کسی کے خواب میں آئے، ان کے علاوہ شیطان کسی کی بھی شکل اختیار کر کے خواب میں آسکتا ہے، اور اسے ادھر ادھر کی باتیں بتا سکتا ہے، اس کے لیے گمراہی کا راستہ ہموار کر سکتاہے۔

 

     واضح رہے کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں:

  • پہلی قسم نفس کا خیال ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اوراس کے دل ودماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بہ صورت خواب نظر آتی ہیں، مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ ور روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن وخیال ان ہی باتوں کی فکر میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ ور روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیں لہذا اس کی کوئی تعبیر بھی نہیں ہوتی ہے۔
  • دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ شیطان چوں کہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ جس طرح عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین لینے نہیں دیتا۔ چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اورڈرانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔ کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل وصورت میں نظر آتا ہے جس سے خواب دیکھنے والا انتہائی خوفزدہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح کے خواب دکھلاتا ہے جس میں سونے والے کو اپنی زندگی جاتی نظر آتی ہےجیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہوگیا وغیرہ وغیرہ...... پہلی قسم کی طرح یہ بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے.

 

 

  • خواب کی تیسری قسم وہ ہے جس کو منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اوراس کے قلب کے آئینہ میں بطورِ اشارات وعلامات ان چیزوں کو مشکل کرکے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے یا جن کا تعلق موٴمن کی روحانی وقلبی بالیدگی وطمانیت سے ہوتا ہے تاکہ وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اورامید آوری رکھے، خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اورجس کی فضیلت و تعریف حدیث میں بیان کی گئی، اور اسی کو سچا خواب بھی کہا جاتا ہے

      مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواب کی پہلی اور دوسری قسم کا کوئی اعتبار نہیں، تیسری قسم قابل اعتبار ہے؛  لیکن یہ تیسری قسم بھی انسان کو ہو بہو اس طرح نہیں دکھایا جاتا جس طرح اس کی زندگی میں پیش آنے والا ہوتا ہے ؛ بلکہ ایک معمہ یعنی puzzle کی شکل میں دکھایا جاتا ہے پھر بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں سے اس کی تعبیر معلوم کی جاتی ہے، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب مشہور ہے کہ انہوں نے گیارہ ستارے، چاند اور سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا، جس کی تعبیر ان کے گیارہ بھائی اور ماں باپ تھے، اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک چاند زمین پر گرا اور اس کی روشنی ہر گھر میں پہونچ گئی، جس کی تعبیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کی تعلیمات ہے۔

     نیز خواب کے بارے میں واضح طور پر دو رائیں ملتی ہیں: ایک تو یہ کہ جس نے دیکھا اس پر عمل کرنا ضروری ہے، دوسرے پر نہیں، دوسری رائے یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا خواب کو قرآن و حدیث کی تعلیمات پر پرکھے، اگر قرآن و حدیث کی تعلیمات اس خواب کی تائید میں ہیں تو اس پر عمل کرے ورنہ اس پر عمل کرنا جائز نہیں، یہی دوسری رائے شریعت کے اصول و ضوابط سے قریب اور عقل کے موافق نظر آتی ہے، لہذا دوسری رائے زیادہ مناسب ہے۔

 

     یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خواب میں انسان بے اختیار ہوتا ہے یعنی خواب دیکھنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا ہے اسی طرح بسا اوقات بیداری کی حالت میں بھی انسان بے اختیار ہوتا ہے،جیسے انتہائی خوشی کے وقت یا شدت غم کے وقت،اور انسان جب بے اختیار ہوتا ہے تو اس حالت میں اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ (چاہے وہ کلمہ کفر ہو) کی وجہ سے اس کا مواخذہ نہیں ہوتا اس کی پکڑ نہیں ہوتی، اس کا اندازہ ایک حدیث سے ہوتا ہے جس کا تذکرہ کچھ سطروں کے بعد کروں گا ان شاءاللہ۔

 

      مذکورہ بالا عبارتوں کی روشنی میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید کا لا الہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ کہنا خواب کی حالت میں تھا جو حالت اختیاری نہیں ہے نیز اس کے بیان سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بے اختیار تھا جیسا کہ وہ کہتا ہے کہ "میں بے اختیار تھا زبان میرے قابو میں نہیں تھی، جب دوسرے روز یہ حالت نہیں رہی خوب رویا"۔

 

      اس کی وجہ سے وہ کافر یا فاسق نہیں ہوگا کیوں کہ وہ حالت اضطراری میں تھا بے اختیار تھا، جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو کافر نہیں کہا جس کی سواری گم ہوگئی تھی، بہت پریشان ہوا کیوں کہ سواری کے اوپر سفر کا سامان بھی تھا، بہت ڈھونڈا آخر کار وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا، آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کی سواری بمع زاد و توشہ کے موجود ہے، بے اختیار اس کے منہ سے نکلا “اللّٰہم انت عبدی وانا ربک!” )یا اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا ربّ!(۔یہ کلمہٴ کفر ہے، مگر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر کا فتویٰ نہیں دیا بلکہ فرمایا: “خطأ من شدة الفرح” شدت مسرت کی وجہ سے اس کی زبان چوک گئی۔

 

      اب دیکھیے یہ شخص حالت بیداری میں کلمہ کفر کہا لیکن بے اختیار زبان سے نکلنے کی وجہ سےحضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کفر کا فتوی نہیں دیا، اسی طرح اس مرید کو بھی کافر نہیں قرار دیا جا سکتا ہے جو اسی کے بقول بے اختیار تھا، مزید یہ کہ مرید صاحب نے خواب میں یہ کلمہ پڑھا تھا لہذا انہوں نے اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے یہ بات ذکر کی تو مولانا نے از راہ تعبیر فرمایا کہ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، "اس خواب میں در اصل تمہارے لیے تسلی ہے کہ تم ایک متبع سنت کی پیروی کر رہے ہو"______اور متبع سنت کی پیروی در اصل سنت کی پیروی ہے، مثلاً آپ نے کسی سے پوچھا پورنیہ کیسے جاؤں؟ اس نے آپ کو تفصیل سے راستہ بتادیا کہ فلاں جگہ دائیں مڑنا ہے، فلاں جگہ بائیں مڑنا ہے، وہ بتا ہی رہا تھا کہ ادھر سے ایک ٹرک کا گزر ہوا جو پورنیہ ہی جارہا تھا، راستہ بتانے والے نے آپ سے کہا کہ یا تو آپ اس ٹرک کے پیچھے پیچھے چلے جائیں پورنیہ پہونچ جائیں گے، لہذا آپ اس ٹرک کے پیچھے پیچھے پورنیہ کے لیے روانہ ہو گئے،________ ٹرک کے پیچھے جانے کی وجہ سے آپ کو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ آپ نے راستہ بتانے والے کی نافرمانی کی، اس نے تفصیل سے راستہ بتایا پھر بھی اس ٹرک کے پیچھے گئے؛ بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ راستہ بتانے والے نے ہی آپ سے کہا تھا کہ آپ بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق چلے جائیں یا پھر اس ٹرک کا فولو کریں آپ نے کسی ایک پر عمل کر لیا،______بالکل اسی طرح شریعت میں بھی ہے کہ یا تو آپ سنت کی پیروی کریں یا پھر اس شخص کی پیروی کریں جو سنت کی پیروی کرنے والا ہو (واتبع سبيل من أناب إلي الخ_سورة لقمان)_________اس طریقے سے آپ سنت ہی کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔

 

      المختصر قرآن و حدیث کی روشنی میں حالت اختیار کا حکم الگ ہے اور بے اختیاری کی حالت کا حکم الگ ہے. مرید صاحب نے خواب دیکھا ان کے پیر نے اس کی تعبیر بتادی، اور حالت بیداری میں جو اس نے کلمہ کفر ادا کیا وہ بے اختیاری کی حالت میں تھا جو مذکورہ بالا حدیث کی وجہ سے معفو عنہ ہے. اور اس بحث میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو برا بھلا کہنا سراسر غلط فہمی اور نا انصافی پر مبنی ہے؛ کیوں کہ مولانا نے کبھی کسی کو نعوذبااللہ ایسا کلمہ نہیں پڑھایا تھا۔

       انجینئر محمد علی صاحب کا مقصد اس طرح کے بیانات سے کیا ہے؟ مجھے پتہ نہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے؛ البتہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں، جو مشہور ہونے اور عوام و خواص میں جھوٹی شہرت پانے کی غرض سے بڑے بڑے علما کی عبارتوں کو out of context لے کر ان کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اور اپنے پاس بیٹھے ہوئے چند سادہ لوح لوگوں کے سامنے علمی دھاک جمانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ ایک بہت بڑا علمی سرمایہ ہے، out of context کی خطرناکی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ ایک آدمی کہہ رہا ہے قرآن مجید میں ہے: نماز کے قریب بھی نہ جاؤ "لا تقربوا الصلوۃ" يعني نماز نہ پڑھو حالانکہ پوری آیت اس طرح ہے "لا تقربوا الصلوۃ وأنتم سكارى'" جس کا مطلب ہے نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ، لہٰذا کاٹ کر عبارت پیش کرنے سے مطلب کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے، اللہ ہم سب کو ایسی چیزوں سے بچائے۔


No comments:

Post a Comment