Use of electric bat


کرنٹ بیٹ کے ذریعے مچھر  اور مکھی مارنا؟

محمد ابوالبرکات قاسمی

 بہ روز جمعہ 19/مارچ 2021ء

ایک مرتبہ کی بات ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت ساری چیونٹیوں کے پاس سے گزر ہوا، جنہیں کچھ صحابہ کرام نے جلا دیے تھے، حضور نے دریافت فرمایا کہ کس نے جلایا؟ وہاں پر موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواباً عرض کیا: ہم لوگوں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ بات مناسب نہیں کہ آگ کے پروردگار کے علاوہ کوئی آگ سے سزا دے۔"

یہ اور اس مضمون کی دوسری احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء کرام نے کرنٹ بیٹ کے ذریعے مچھر مارنے کو مکروہ کہا ہے؛ کیوں کہ یہ بھی گویا آگ سے جلانا ہے، جب کہ بعض دوسرے حضرات نے فرمایا ہے کہ آگ کے ذریعے سزا دینا تو مخلوق کے لیے مناسب نہیں ؛لیکن برقی جھٹکے آگ نہیں ہوتے؛ کیونکہ بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے کسی بھی چیز کے خلیے انتہائی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور فوری طور پر خون کی رگیں پھٹ جاتی ہیں ، اور اگر کرنٹ زیادہ قوت میں ہو تو اس کی وجہ سے مقتول کے جسم کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات کوئلہ بن جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسے آگ سے جلایا گیا ہو؛ لیکن حقیقت میں وہ کرنٹ سے جلا ہوتا ہے آگ سے نہیں_____لہذا کرنٹ بیٹ کا استعمال بلا کراہت جائز ہوگا۔

جہاں تک احقر کی تحقیق ہے وہ یہ ہے کہ کرنٹ کو نہ تو مطلقاً آگ کہ٬ سکتے ہیں اور نہ سرے سے یہ کہ٬ سکتے ہیں کہ کرنٹ اور آگ دونوں بالکلیہ الگ الگ متضاد قسمیں ہیں؛ بل کہ ملی ایمپیئر(MA) کی کمی بیشی سے بجلی کا حکم مختلف ہوجاتا ہے۔جیسے کبھی بجلی سے بدن میں صرف سنسناہٹ کا احساس ہوتا ہے، ایم اے اور زیادہ ہو تو مسلز میں کھچاؤ اور درد کا احساس، اور زیادہ ہو تو مسلز میں کنٹرول کا ختم ہوجانا، پھر نظام تنفس مفلوج ہو جانا، اس سے زیادہ ہو تو دل کا سکڑ جانا، وغیرہ وغیرہ، یہاں تک کہ جب ایم اے 1500 سے اوپر ہو جائے تو اعضاء جل جاتے ہیں، یہ اس کا آخری اسٹیج ہے۔ اس لیے بجلی اور آگ نہ تو بالکل الگ ہے اور نہ بالکل ایک۔

میرا خیال ہے کہ لوگ کرنٹ بیٹ کھلی فضا میں مچھر مارنے کے لیے نہیں لیتے ہیں؛ بل کہ کسی محدود جگہ میں مچھر مارنے کے لیے لیتے ہیں جیسے کسی بند کمرے میں یا مچھر دانی کے اندر کے وہ مچھر جو مچھر دانی کو اپنی جاگیر سمجھ کر گھس جاتے ہیں اور وہ صحیح کرتے ہیں؛ کیوں کہ مچھر دانی نام ہی غلط ہے، آدمی رہتا ہے اس میں تو آدمی دانی نام ہونا چاہیے جیسے شمع دان، قلم دان اور صابن دانی وغیرہ، بہرحال کسی محدود جگہ کے مچھروں کو مارنے کے لیے عام طور پر کرنٹ بیٹ کا استعمال کیا جاتا ہے؛ تاکہ جتنے مچھر آگئے ہیں تمام کو مارکر چین کی نیند سوئیں، یہ کھلی فضا میں ممکن نہیں______ اب بند کمرے میں یا مچھر دانی کے اندر کے مچھروں کو پکڑ پکڑ کر سزا دینا کوئی آسان کام نہیں، جنہوں نے کوشش کی ہے ان سے پوچھیے کیسے لوکا چھپی یا چھپن چھپائی کا کھیل کھیلتے ہیں یہ مچھر۔

اب ان مچھروں کو مارنے کے لیے دو طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ فاسٹ کارڈ کا استعمال کیا جائے، جس سے کچھ سیکنڈوں میں مچھر بے ہوش ہو جاتے ہیں، بعض مرتبہ مر جاتے ہیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کرنٹ بیٹ سے جم کر بیٹنگ کی جائے جس سے مچھر کا مرنا یقینی ہے، اب غور فرمائیے پہلے طریقے میں مچھر کا مرنا یقینی نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس سے طبی لحاظ سے انسان کو نقصان پہونچتا ہے، اور ایسی چیز کا استعمال جس سے انسان کو جسمانی نقصان پہونچے مکروہ ہے لہذا پہلا طریقہ مکروہ ہوا، اور دوسرا طریقہ یعنی کرنٹ بیٹ کے استعمال کو بھی علماء کرام نے مکروہ لکھا ہے؛ لہذا دونوں طریقے مکروہ ہوئے، اب ذرا اور غور فرمائیں کہ پہلا طریقہ جو مکروہ ہے اس میں انسان کی ذات ملحوظ ہے ؛ جب کہ دوسرے طریقے میں مچھر کی ذات مد نظر ہے، دونوں میں تقابل کیا جائے تو دوسرا طریقہ یعنی کرنٹ بیٹ کے ذریعے مچھر مارنا جائز ہونا چاہیے؛ کیوں کہ انسان کی ذات مچھر کی ذات کے مقابلے میں اعلی و اشرف ہے۔

لیکن پھر دوبارہ یہ بات دہرا دوں کہ یہ حکم کھلی فضا کے بارے میں نہیں ہے، اگر کوئی شخص کھلی فضا میں کرنٹ بیٹ کا استعمال کرکے مچھر مارتا ہے تو بہر حال مکروہ ہوگا؛ اس لیے کہ کھلی فضا میں مچھر مارنا تفریح کے لیے ہوگا اور از راہ تفریح کسی جان دار کی جان لینا کسی طرح مناسب نہیں، اگر تفریح کے لیے نہ ہ بھی ہو پھر بھی کھلی فضا میں مچھر بھگانے کا حل کرنٹ بیٹ بالکل نہیں، اس سے مچھر کی تعداد میں کمی نہیں ہوگی بلکہ ایک مرنے سے اس کے ہزاروں رشتے دار آ پہونچیں گے اور ان کے کھانے پینے کا انتظام آپ ہی کو کرنا ہوگا۔________خلاصہ یہ ہے کہ مچھر بھگانے کے دوسرے طریقے اگر کارگر نہ ہوں تو کرنٹ بیٹ کا سہارا لینا جائز ہوگا۔ واللہ اعلم و علمہ اتم۔

 

(نوٹ )یہ مسئلہ گرچہ ذرا مزاحیہ انداز میں لکھا گیا ہے ؛لیکن نفس مسئلہ کو سمجھانا مقصود ہے اور کچھ نہیں، اگر مسئلے کی تشریح میں غلط بیانی ہوئی ہو تو آپ ضرور آگاہ فرمائیں، میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔

 

محمد ابوالبرکات قاسمی پورنوی

 

۞۞۞۞۞


No comments:

Post a Comment