Sadqatul fitr and our deeds

  

صدقۃ الفطر اور ہمارا طرز عمل


    از قلم: محمد ابو البرکات قاسمی پورنوی

    بہ روز جمعہ 7/مئی 2021

 

صدقہ فطر کے واجب ہونے میں جہاں مال کی پاکیزگی مد نظر ہے وہیں غریبوں کی امداد بھی پیشِ نظر ہے؛ بلکہ غریبوں کی امداد کو بڑی اہمیت حاصل ہے؛ اس لیے صدقہ فطر ادا کرنے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہونچے، جس کے پاس عید الفطر کی صبح صادق کے وقت قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی چیزوں سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولے یعنی چھ سو بارہ گرام تین سو ساٹھ ملی گرام (612 گرام 360 ملی گرام) چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔

آج کل ہم جن حالات سے دوچار ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، پوری انسانیت؛ بلکہ کرۂ ارض پر زندگی کا نظام درہم برہم ہے، راہیں مسدود ہیں، فضا کرونا آلود ہے، زمین پر کہیں ضروری اور کہیں غیر ضروری کرفیو لاگو ہے، حالات اس طرح کشیدہ ہیں کہ انسان کا ایک بڑا طبقہ فاقہ کشی کا شکار ہے۔ ان حالات میں ہمارا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند حضرات کو مالی تعاون کریں، ان کو تسلی دیں، مذہب اسلام نے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں حضرت انسان کی رہنمائی کی ہے وہیں اس حوالے سے بھی ضروری ہدایات سے نوازہ ہے، زکوٰۃ اور صدقات کا ایک ایسا نظام رکھا ہے کہ اگر ہر صاحبِ نصاب شخص اس فریضے کو انجام دیں تو زمین پر غریبوں اور ناداروں کو بھی سہارا ملے، وہ بھی زندگی کا لطف اٹھائیں اور انہیں یہ احساس ہو کہ وہ بھی زندگی گزارنے کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں، قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں جگہ جگہ آیا ہے: "تم اللہ کی مدد کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کریں گے" اللہ کی مدد سے کیا مراد ہے؟ کیا اللہ مدد کے محتاج ہیں؟ نعوذ باللہ! نہیں ہر گز نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے دین کی مدد کرو، اللہ کے ان مخلوق کی مدد کرو جو مدد کے محتاج ہیں، جو بیمار ہیں ان کی عیادت کرو۔جیسا کہ امام مسلم علیہ الرحمہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "صحیح مسلم" میں ایک حدیث نقل فرمائی ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائیں گے: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ شخص کہے گا کہ اے میرے رب! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا؟ حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ا للہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا؟ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا؟ حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ فرمائیں گے: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا؟ تم اگر اس کو کھانا کھلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے۔ اے ابن آدم! میں نے تم سے پانی مانگا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں آپ کو کیسے پانی پلاتا؟ حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے فلاں بندہ نے تم سے پانی مانگا تھا اگر تم اس کو پلاتے تو تم مجھے اس کے پاس پاتے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ)

ادھر ہم اپنے احوال پر غور کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہم لوگ صدقۃ الفطر تو شوق سے ادا کرتے ہیں چاہے وہ ہم پر واجب ہو یا نہ ہو، اور یہ ایک اچھی بات ہے، اللہ تعالیٰ اس کا اجر دے گا؛ لیکن جہاں بات زکوۃ کی آتی ہے تو ہم میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم کہ زکوٰۃ صاحبِ نصاب شخص پر اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے، میرے پیارے بھائیو! زکوۃ دین اسلام کے پانچ کھمبوں میں سے ایک ہے، لہذا جس پر زکوٰۃ واجب ہے اور وہ ادا نہیں کرتا ہے تو گویا اس کا اسلام صرف چار کھمبوں پر قائم ہے اور یہ بھی اس وقت جب وہ باقی چار چیزوں پر عمل کرتا ہو، ورنہ ہمیں اپنے ایمان اور اسلام کا جائزہ لینا چائیے کہ ہم نام کے مسلمان ہیں یا کام کے بھی۔ اللہ کی پناہ!

بہرحال بات یہ چل رہی تھی کہ ہم یا تو زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں یا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ ہم پر فرض ہے، میری گزارش ہے ان بھائیوں سے جو صاحبِ نصاب ہیں کہ آپ صدقۂ فطر کے ساتھ ساتھ زکوۃ کی رقم بھی غریبوں میں تقسیم کریں، اس سے جہاں آپ کے مال میں پاکیزگی آئے گی وہیں ان غریبوں اور لاچاروں کے گھروں میں چولہا جلے گا، ان کے بچے اسکول میں تعلیم حاصل کر سکیں گے، ان کے سپنے پورے ہوں گے۔ بعض گھروں میں لوگ بیمار پڑتے ہیں تو ان کے پاس دعا کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا، آپ زکوۃ کی رقم انہیں پہونچا کر یہ باور کرائیے کہ ان کی دعا قبول ہوگئی، اللہ نے آپ کے ذریعے سے ان کی دعا قبول فرمائی، ورنہ جب وہ دعا کرتے کرتے تھک جائیں گے، مسلمان مال و دولت والے ان کی طرف توجہ نہیں دیں گے، اللہ پر سے ان کا بھروسہ کم ہو جائے گا اور اس وقت کوئی عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے یا قادیانی مذہب کا پیروکار یا پھر ہندو مت کا کوئی کارئیے کرتا اس کی مدد کردے گا نتیجتاً وہ اس مذہب کو قبول کرلے گا، اس وقت اگر آپ سے اللہ نے پوچھ لیا کہ تم کو میں نے مال و دولت سے نوازہ تھا تم نے کیسے اپنے ایک دینی بھائی کو دین سے پھرنے دیا؟ اس کی مدد نہیں کی؟ خدا کی قسم اس وقت ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا، پھر ہم اللہ تعالیٰ کی سخت گرفت میں آ جائیں گے۔ لہذا جس طرح ہم صدقۂ فطر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اسی طرح زکوٰۃ ادا کرنے میں بھی پیش قدمی دکھائیں۔

جو حضرات صدقۃ الفطر پابندی سے ادا کرتے ہیں، ان کے بارے میں بھی بتاتا چلوں کہ سماج میں عموماً تین طرح کے لوگ رہتے ہیں:

v    ایسا مال دار جو کافی مال و دولت کا مالک ہے۔

v    متوسط درجہ کے مال دار۔

v    غریب لوگ۔

صدقۂ فطر پہلے دونوں طرح کے لوگوں پر واجب ہے؛ لیکن دونوں صدقہ فطر کے طور گیہوں کی قیمت ادا کردیتے ہیں۔ جو صدقہ فطر کی روح کے خلاف ہے۔ اگر پہلی قسم کے لوگ منقی، کشمش، کجھور اور چھوہارے سے صدقہ ادا کریں، اور دوسری قسم کے لوگ گیہوں وغیرہ یا اس کی قیمت ادا کریں تو میرے خیال سے غریبوں کے لیے خاص طور پر کورونا کے ان وبائی حالات میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگا، اور آپ کے ثواب میں اضافہ بھی ہوگا، اللہ کی رضامندی حاصل ہوگی، قیامت کے دن آپ کے نامۂ اعمال میں گیہوں والے کے بہ نسبت زیادہ اجر لکھا ہوگا۔ لہذا اپنی اپنی حیثیت کے مطابق صدقۂ فطر کی ادائیگی کریں، اب گیہوں، کھجور، کشمش وغیرہ کس میں کتنا نکالنا ہے؟ وہ درج ذیل ہے:

جو لوگ کشمکش، منقی، کھجور، چھوہارے اور پنیر سے صدقہ ادا کرنا چاہیں، وہ ان میں سے کسی ایک کے 3 کلو 149 گرام 280 ملی گرام کی قیمت ادا کر سکتے ہیں_____ اور گیہوں نکالنا چاہیں تو ایک کلو 574 گرام 640 ملی گرام گیہوں کی قیمت نکالیں۔ آسانی کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کشمکش، منقی، کھجور، چھوہارے اور پنیر سے صدقہ ادا کرنے والے 3 کلو 150 گرام یا اس کی قیمت ادا کریں اور گیہوں والے 1 کلو 600 گرام گیہوں یا اس کی قیمت بطور صدقہ ادا کریں۔

جو حضرات اتنے معذور ہو چکے ہوں کہ اب انہیں یہ امید نہیں کہ زندگی بھر اب کبھی روزہ رکھ سکیں گے تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک کلو چھ سو گرام گیہوں کی قیمت کے حساب سے صدقہ کریں، یہ حکم ان لوگوں کے لیے نہیں ہے، جو معمولی بیماری میں مبتلا ہوں یا پھر انہیں یہ امید ہو کہ آئندہ وہ روزہ رکھنے پر قادر ہو جائیں گے۔

نیز یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ لوگوں کے گھر والوں یا رشتے داروں میں بھی بعض غریب ہوتے ہیں۔ احادیث میں آتا ہے اپنے غریب رشتے داروں کو زکوۃ یا صدقہ کی رقم ادا کرنا ثواب میں دو گنا اصافہ کر دیتا ہے( بخاري شریف حدیث نمبر 1466)۔ لہذا زکوۃ یا صدقہ فطر ادا کرنے میں اپنے رشتے داروں کو مقدم رکھنا چاہیے پھر بچ جائے تو دوسرے غریب مسلمان کو دینا چاہیے۔

صدقہ فطر کن رشتے داروں کو دینا جائز ہے:

جن لوگوں کو زکوٰة دینی جائز ہے ان کو صدقہ فطر دینا بھی جائز ہے، مثلاً بھائی، بہن، بھتیجی، بھانجی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، سوتیلا باپ، سوتیلی ماں، داماد، ساس، سسر، سالہ، سالی وغیرہ، ان سب کو زکوٰة اور صدقہ فطر دینا جائز ہے۔ (شامی)

کن رشتے داروں کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں:

ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، پردادا، پردادی، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی، خاوند، بیوی وغیرہ ان سب کو زکوٰة و صدقہ فطر دینا ناجائز ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے اور روح اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

۞۞۞۞۞

No comments:

Post a Comment