قبرستان کی بے حرمتی اور ہمارا ضمیر

 قبرستان کی بے حرمتی اور ہمارا ضمیر

محمد ابوالبرکات قاسمی 

4/جون 2021 بہ روز جمعہ

 

موت ایک اٹل حقیقت ہے، کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نہیں مروں گا، اس کے شکنجے سے کسی کو چھٹکارا ملا ہے اور نہ مل سکتا ہے، اللہ رب العزت کا سب سے محبوب بندہ، جن کی وجہ سے اس دنیا کو وجود ملا، جسمانی اعتبار سے حسن وجمال کا پیکر اور روحانی اعتبار سے اللہ کو تمام مخلوقات میں عزیز تر، رسولوں کے امام، سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے جانے والے، اللہ سے بالمشافہ بات کرنے والے، محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ، سید الکونین، خاتم الانبیاء، فخر دو عالم ﷺ کی مستعار عمر جب پوری ہوئی، اللہ کی طرف سے پیار بھرا بلاوا آیا تو آپ بھی اس دنیا کو ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ گئے۔

یہ دنیا جگہ اور زمانہ دونوں اعتبار سے محدود ہے , محدود ظرف میں غیر محدود چیز نہیں آ  سکتی؛ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنی مخلوق پیدا فرمائی، ہر ایک کو ایک محدود جسم اور محدود عمر عطا فرمایا، نہ کوئی غیر محدود جسم والا اس دنیا میں جنم لے سکتا ہے اور نہ کوئی محدود جسم والا غیر محدود زمانے تک اس دنیا میں رہ سکتا ہے، یہ اللہ کا نظام ہے۔

جب کوئی مہمان آتا ہے تو گھر میں لانے سے پہلے انہیں بیٹھک میں بٹھاتے ہیں، اسی طرح انسان جب دنیوی زندگی مکمل کرکے اخروی زندگی کا آغاز کیا چاہتا ہے تو پہلے اسے برزخ یعنی قبر والی زندگی عطا کی جاتی ہے، جب قیامت قائم ہوگی تو ہمیشہ ہمیش کی زندگی عطا کی جائے گی، اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں قبر دینے کا نظام عطا کیا ورنہ غیر قوم جو نعش کو جلاکر یا اور دیگر رسوم کے ذریعے نعش کے ساتھ بے حرمتی کرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے، ہمیں اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے، آج کل فرقہ پرست عناصر اپنی تمام تر طاقتوں اور صلاحیتوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، کہیں مسلمانوں کو ذہنی طور پر پریشان کیا جارہا ہے تو کہیں اس کی جائداد ہڑپنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، مسجدوں کی شہادت کی خبریں تو باربار کانوں سے ٹکراتی ہی ہیں؛ لیکن ملک بھر میں پھیلی ہوئی قبرستان کی زمینوں پر بھی ان کی نظر بد لگنا شروع ہو گئی ہے، کہا جارہا ہے کہ قبرستان چوں کہ کافی جگہ لے لیتی ہے اس لیے دفن کے بجائے ہر ایک کے لیے جلانے کا قانون بننا چاہیے، ایک شمشان گھاٹ ہونا چاہیے،جس میں مردے کو جلا کر راکھ کردیا جائے، قبرستان کے نظام کو ختم کر دیا جانا چاہیے، وغیرہ وغیرہ، اللہ کی پناہ!

اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطا کرتا ہے اور اس کی قدر نہیں ہوتی ہے تو وہ نعمت چھین لی جاتی ہے، یقیناً اللہ رب العزت نے ہمیں کفن دفن، قبر دینے کا طریقہ اور قبرستان کے نظام کو عطا کرکے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہم نے شکریہ ادا کرنے کے بجائے اس نعمت کی ناقدری کی اور کر رہے ہیں، قبرستان کی بے حرمتی، مسجدوں کی بے حرمتی ہمارا شیوہ بن چکا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ ہم سے ناراض ہو کر اس نعمت سے ہمیں محروم کردے اور ہم واویلا مچاتے پھریں کہ ہم پر اللہ کی مدد اور نصرت نہیں ہو رہی ہے، جس طرح ہمارے لیے زندوں کا احترام ضروری ہے بالکل اسی طرح شریعت نے ہمیں مردوں کے احترام کا بھی مکلف بنایا ہے، زندوں کا احترام تو ہمیں یاد رہا؛ لیکن قبر والوں کا احترام ہمیں عجوبہ لگنے لگا، کیوں کہ زندوں سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، مردوں سے نہیں؛ لیکن یاد رہے کہ اگر مردوں کے احترام سے امیدیں وابستہ نہیں لگتی ہیں تو احترام نہ کرنے سے غضب خداوندی، سکون دل، آرزوؤں کے انہدام اور نعمتوں کے چھن جانے کا امکان ضرور ہے۔

قبرستان ایک ایسی پاکیزہ جگہ ہے جہاں ہر گھر کے وہ افراد آرام کر رہے ہیں اور آخرت کا انتظار کر رہے ہیں جو دنیوی زندگی گزار کر چلے گئے، بہت سارے لوگوں کے وہ بچے بھی وہاں مدفون ہیں جو کبھی لاڈلے ہوا کرتے تھے، ان کو آرام پہونچانا زندگی کا مقصد ہوا کرتا تھا، وہ بیمار ہوتے تو نیندیں اڑ جاتیں، نظروں سے اوجھل ہوتے تو دل دھڑکنے لگتا، قبرستان میں آرام کرنے والوں میں وہ عورتیں بھی ہیں جو کسی کی مائیں لگتی ہیں کسی کی بہنیں لگتی ہیں، وہی ماں جن کی زندگی کا بیشتر حصہ بچے کی پرورش میں گزر جاتی ہے، جب اولاد کمزور ہوتی ہیں کچھ کر نہیں سکتیں، ماں ان کے سانسوں سے، پیشانی پر پڑے سلوٹوں سے ان کی بھوک پیاس کا اندازہ لگا تی ہیں اور ان کی ضرورتیں پوری کرتی ہیں، بہت سے لوگوں کے والد بھی مدفون ہوں گے جن کو جنت کا دروازہ کہا گیا،جن کی رضامندی کو اللہ کی رضامندی اور جن کی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی کہا گیا، جن کی تربیت پاکر بہت سے افراد کامیابی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو اپنی اولاد کی فلاح و بہبود کی خاطر اپنی زندگی کی عیش و عشرت کو، دل کے سکون کو، احساسات اور جذبات کو قربان کردیا، آج وہ قبرستان میں سوئے ہوئے ہیں، ان کی قبر کی بے حرمتی ہو رہی ہے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کے سینوں کو گائے بکریاں روند رہی ہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کے اوپر یہ جانور پیشاب پاخانہ کر رہے ہیں، ہم اف تک نہیں کر سکتے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے انہیں دفن کرتے وقت اپنی ضمیر کو بھی دفن کردیا، مرحوم کے احسانات کو ہم نے بھلا دیا۔ جب تک وہ زندہ تھے ان کی قدر کی اور جب وہ وفات پا گئے تو دو تین دن کی رسمی کلمہ خوانی اور دس بارہ روز قبرستان کا چکر لگاکر ہم نے ہاتھ جھاڑ لیا، لا حول ولا قوۃ الا باللہ!

میرے پیارے بھائیو! جس طرح زندوں کو تکلیف پہونچانے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے،اسی طرح مردوں کوبھی  تکلیف پہونچانے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے، ہم یہ کیسے گوارا کر لیتے ہیں کہ ہمارے جان سے بھی زیادہ عزیز والدین،بچے اور دیگر رشتے داروں کی روحیں تڑپ رہی ہیں، اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں ہیں، مردوں کو ایک تکلیف تو وہ ہوتی ہے جو ان کے اعمال کی وجہ سے بطور سزا دی جاتی ہے، اور ایک تکلیف وہ ہوتی ہے جو ہم گاؤں کے لوگوں کی نااہلی اور ذمہ داروں کی ذمہ خوری کے سبب قبروں کی بے حرمتی سے ہوتی ہے، نماز جنازہ کے وقت جب جنازہ سامنے ہوتا ہے، تو وارثین اور دوسرے متعلقین یہ اعلان کرواتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی حق رہ گیا ہو تو وہ وصول کرلیں، یہ اعلان اس لیے ہوتا ہے تاکہ میت کو اس کی وجہ سے تکلیف سے دوچار ہونا نہ پڑے؛ لیکن وہ تکلیف جو صرف اور صرف ہماری کوتاہی کی وجہ سے انہیں پہونچتی ہے اس کے بارے میں ہم خاموش رہتے ہیں، گویا ہم اس بات سے خوش ہیں کہ مل جل کر ایک دوسرے کے مرحومین کو تکلیف پہونچاتے رہیں، افسوس صد افسوس!

پہلی تکلیف تو دعاؤں اور ایصال ثواب کے ذریعے ممکن ہے کہ دور ہو جائے  اور لوگ ایسا کر بھی رہے ہیں؛ لیکن دوسری تکلیف صرف اور صرف ہماری بیداری سے دور ہوگی، یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے، خدارا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں، اپنے اپنے لیول کی ذمہ داری نبھائیں۔

حضور ﷺنے فرمایا: "تم میں سے کوئی آگ کے انگارے پر بیٹھے اور اس کے کپڑے جل کر چمڑے تک آگ پہونچ جائے یہ اس سے بہتر ہے کہ کوئی کسی قبر پر بیٹھے" (مسلم شریف) اسی طرح ایک حدیث میں فرمایا: "تمہارا آگ کے انگارے پر چلنا یا تلوار کی دھار پر چلنا کسی مسلمان کی قبر پر چلنے سے بہتر ہے"، ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک قبر پر ٹیک لگائے دیکھا تو آپ نے فرمایا: "قبر والے کو تکلیف مت دو" اس سے قبر والے کو تکلیف ہوتی ہے، میرے دینی بھائیو! ٹیک لگانے سے تکلیف ہوتی ہے تو سوچیے قبرستان کی چہار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے جانوروں اور بے ضمیر انسانوں سے جو تکلیف پہونچتی ہے وہ کتنی بڑی ہوگی، ایک تو وہ لوگ ہیں جو جانوروں کو باضابطہ قبرستان میں باندھ کر آتے ہیں، پتہ نہیں ان کا دل پتھر کا ہے یا کسی چٹان کا، اور کچھ لوگ قبرستان کے مرحومین کے سینوں پر اپنی اناج سکھاتے ہیں، شاید ان کے اپنے اس قبرستان میں مدفون نہیں ہیں، اللہ انہیں سمجھ عطا فرمائے!

قرآن مجید میں ایک واقعہ لکھا ہے مختصراً ذکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سنیچر کے دن مچھلی مارنے سے منع فرمادیا تھا، کچھ لوگ طرح طرح کے حیلے کرکے مچھلی مارنے لگے، کچھ لوگوں نے انہیں ایسا کرنے سے روکا، جب کہ کچھ لوگ نہ مچھلی مارے اور نہ ان کو اس سے روکا، معلوم ہے جب اللہ کا عذاب آیا تو کن پر آیا ؟ مچھلی مارنے والے اور خاموش رہنے والے دونوں پر اللہ کا عذاب آیا اور انہیں بندر بنا دیا گیا، محفوظ رہے تو صرف روکنے والے  محفوظ رہے، اس لیے سماج میں کوئی برائی پنپ رہی ہو تو مل جل کر اس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے، ورنہ جب اللہ کا عذاب آئے گا تو سب کو لپیٹ میں لے لے گا____ لہذا آگے بڑھیں، قبروں کی بے حرمتی اور توہین کا خاتمہ کریں اور جہاں جہاں قبرستان کی چہار دیواری نہیں ہوئی ہے، مقامی لوگ کوشش کریں کہ جلد سے جلد چہار دیواری مکمل ہوجائے، ورنہ ایک دن ہم میں سے ہر ایک اس تکلیف میں مبتلا ہوگا اور ہماری زبان میں وہ طاقت  نہیں ہوگی کہ ہم اپنے گھر والے کو کہلا بھیجیں  یہ تکلیف دور کردو۔

چہار دیواری یا تو مقامی چندے سے کریں یا سرکاری فنڈ سے بہت سے قبرستان کی چہار دیواری کا کام سرکاری فنڈ سے ہوا ہے اس لیے پہلے حتی المقدور یہ کوشش کریں کہ سرکاری فنڈ سے ہوجائے، جو اس میں رکاوٹیں ہیں انہیں دور کریں، ان شاء اللہ اگر گاؤں کا ہر فرد اسے اپنی ذمہ داری سمجھے تو یہ کام آسان ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ آسان فرمائے۔

 

HHH

No comments:

Post a Comment