Triple Talaq in Islam?

  کیا شریعت کی روشنی میں تین طلاق ہو جاتی ہے ؟
کیا ہمیں بل کی مخالفت کرنی چاہیے ؟_____ ایک تحریر قرآن و حدیث کی روشنی میں
از __محمد ابواالبرکات قاسمی

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے:  "فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ" (سورہ نور:65)  جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں وہ فتنہ میں مبتلا ہو جائیں یا دردناک عذاب میں گرفتار ہو جائیں_______اسی طرح حدیث شریف میں ہے: قریب ہے کہ تم میں سے کوئی مجھے جھٹلائے گا وہ ٹیک لگا کر میری حدیث بیان کرے گا اور کہے گا ارے ہمارے درمیان اللہ کی کتاب قرآن تو ہے ہی، لہذا اس میں جو ہمیں حلال ملے گا ہم اسے حلال سمجھیں گے اور جو حرام ملے گا اسے حرام قرار دیں گے، سن لو! جو رسول اللہ نے حرام کیا وہ اسی طرح حرام ہے جسے اللہ نے حرام کیا۔ (ابن ماجة شريف:حديث نمبر 12)۔
آج کل لوگ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو قرآن میں نہیں ہے لہذا  اسلام میں بھی نہیں ہے، ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا  چاہئے ؛ کیوں کہ اس سے اگرچہ یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ قرآن کے مطابق بول رہا ہے لیکن در پردہ  وہ حدیث کا انکار کرتاہے، جس طرح قرآن میں کہی ہوئی بات پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح احادیث پر بھی عمل ضروری ہے، اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:جو کچھ رسول تمہارے پاس لے کر آئیں اسے لے لو اور جس چیز سے تمہیں روکیں اس سے رک جاؤ(سورة الحشر:7 ) ___دوسری جگہ فرمایا:جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے فتنہ میں پڑنے اور دردناک عذاب میں مبتلا ہونے سے ڈرنا چاہئے(سورة النور:65)___ نیز  ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان ہےکہ وہ مجھے جھٹلائے گا جیسا کہ اوپر حدیث میں مذکورہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ بات تو صد فیصد درست ہے کہ ہم قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے طرح طرح کی مشکلات اور مصائب سے دوچار ہو رہے ہیں، اگر مسلمان طلاق کے معاملے میں بھی قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے طریقے کو اپناتے تو یہ سب پریشانیاں کھڑی نہیں ہوتیں۔
البتہ کسی چیز میں رائے قائم کرنے سے پہلے اس کے متعلق پوری معلومات ضروری ہے "A little knowledge is dangerous thing"  ____بڑا تعجب ہوا  جب میں نے ایک مسلمان کی تحریر میں پایا کہ تین طلاق کوئی چیز نہیں کیوں کہ اس کا ذکر قرآن میں نہیں، اگر وہ احادیث کی طرف نظر فرماتے ہرگز ایسی بات کہنے کی جسارت نہیں ہوتی، میرا ان سے سوال ہے کہ اگر کسی چیز کا ذکر قرآن میں نہ ہو تو کیا اس کا وجود ہی نہیں ہوتا؟ اگر ہاں تو ہم دن میں پانچ نمازیں پڑھتے ہیں کس نماز میں کتنی رکعتیں ہیں کیا قرآن میں اس کی تفصیل ہے؟ یقیناً جواب ہوگا ،"نہیں"
تفصیل میں نہ جاتے ہوئے مختصراً عرض کرتے ہیں کہ قرآن میں بعض مسائل تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں جب کہ بعض کو مجمل اور اختصار کے ساتھ  پیش کیا گیا ہے اور ان کی تفصیل احادیث مبارکہ میں ملتی ہے؛ کیوں کہ قرآن مجید متن کے درجے میں ہے اور احادیث قرآن کی شرح ہے، ___زمانہ جاہلیت میں طلاق کی تعداد متعین نہیں تھی، سو،ہزار، دس ہزار جس کے منہ میں جتنا آتا بول دیتا، جب اسلام آیا تو قرآن نے اس کو متعین اور محدود کر دیا کہ دیکھو طلاق دو مرتبہ ہے دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد اگر اپنی بیوی کو رکھنا ہے تو اچھائی کے ساتھ رکھو ورنہ بہترین طریقے سے اسے جدا کردو، پھر آگے فرمایا:پھر اگر طلاق دے دی یعنی دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد پھر ایک مرتبہ طلاق دے دی تو اب اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی (سورة البقرة:30-229) اس آیت سے پتہ چلا کہ طلاق کی تعداد تین ہی ہے اس زیادہ نہیں۔
اب رہا طلاق کا طریقہ کہ کس طرح دی جائے تو قرآن نے اس کو بہت اچھی طرح بیان کیا ہے ،جو طلاق کا سب سے اچھا اور عمدہ طریقہ ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے علاوہ طلاق دینے کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے؛بلکہ اس کے اور بھی کئی طریقے ہیں،سب سے گھٹیا طریقہ یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دے دی جائے، ایسا کرنا گناہ ہے لیکن طلاق واقع ہو جاتی ہے جیسے گالی دینا، جان مارنا وغیرہ گناہ ہیں ،لیکن اگر کوئی گالی دے دے  تو گالی پڑ جاتی ہے اور جان مار دے تو  آدمی مر جاتا ہے ____اب یہ سوال کہ "تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں" یہ کہاں لکھا ہے؟ یہ بے شمار احادیث میں ہے جیسے:

1          عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول؟ قال لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول.(بخاري شريف:5261) _____حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، اس کی بیوی کی شادی دوسرے سے ہوگئی پھر اس نے بھی طلاق دے دی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کیا اس عورت کی شادی اس کے پہلے شوہر سے ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا:نہیں، جب تک دوسرا شوہر اس کا شہد نہ چکھ لے یعنی اس سے ہم بستری نہ کر لے____اگر تین طلاق واقع نہیں ہوتیں تو حضور نا میں جواب نہیں دیتے؛ کیوں کہ جب تین طلاق نہیں ہوئی تو  دوسرے سے اسکی شادی نہیں ہونی چاہئے تھی اور پہلے شوہر کے لیے حلال ہونی چاہیے تھی؛ کیوں کہ جب طلاق نہیں ہوئی تو وہ اس کی بیوی باقی ہے، لیکن حضور نے کیا جواب دیا؟__ حضور صلی اللہ  علیہ و سلم کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے اس وقت حلال ہو سکتی ہے جب  تک اس کی شادی کسی دوسرے سے نہ ہو اور اس سے ہم بستری نہ کرلے.اس سے پتہ چلا کہ پہلے شوہر کی دی ہوئی تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں۔

2          كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلاَثًا؟ قَالَ: لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - أَمَرَنِى بِهَذَا، فَإِنْ طَلَّقْتَهَا ثَلاَثًا؛ حَرُمَتْ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَك.{بخاری شریف:626}
یہ بخاری شریف کی روایت ہے جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ان سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے تین طلاق دی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر اس نے تین طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی۔
اس طرح کی بہت ساری احادیث ہیں جن میں ایک ساتھ تین طلاق ہو جانے کی بات آئی ہے، چند کتب احادیث کے  نام اور حدیث نمبر ذیل میں دیے جاتے ہیں جن میں خود دیکھا جا سکتا ہے:
&       ابوداؤد شریف:225.
&       نسائی شریف:3441 .
&       مصنف ابن ابی شیبہ:18087.
&       شرح معانی الآثار:447/4481.
&       صحیح ابن حبان:4122.
&       مؤطا إمام مالک:499/194.
&       مصنف ابن ابی شیبہ:19564.
&       پھر شرح معانی الآثار:14664.
&       سنن البیہقی:15198.
&       دار قطنی:3932.
اسی طرح نہ کسی صحابی، نہ تابعی، نہ تبع تابعی، نہ ائمہ اربعہ اور نہ ہی علماء نے یہ بات کہی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، یہ تو سب سے پہلے مودی حکومت کے بل میں اور دوسرے محترم کی تحریر میں دیکھا؛ بلکہ صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج کل کے علماء عظام تک سب نے  قرآن و حدیث کے بغور مطالعہ کے بعد اتفاق کیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، ذیل میں کچھ کتابوں کے نام اور صفحہ نمبر ذکر کیے جارہے ہیں جن میں یہ بات مذکور ہے:
&       احکام القرآن: 469/1.
&       فتاوی شامی، کتاب الطلاق:434/4.
&       مرقاة شرح مشکوة شریف:399/6.
&       بذل المجهود شرح ابو داؤد شریف :حدیث نمبر 200 کے تحت .
&       الاشباہ و النظائر:ص، 376 .
&       ھدایہ:399/2 .
&       مجمع الانہر:88/2.
ان تمام احادیث اور فقہ کی کتابوں سے پتہ چلا کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے طلاق ہو جاتی ہیں___اور سرکار نیا قانون یہ لا رہی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع نہیں ہوگی اسی کے ساتھ تین سال کی سزا بھی ہوگی، جب سرکار کی نظر میں تین طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو تین طلاق دینا جرم بھی نہیں ہونا چاہیے اور جب جرم نہیں تو سزا کس بات کی؟ ، یہ بس دوسری اہم چیزوں سے الجھائے رکھنا ہے. ایک ساتھ تین طلاق دینا شریعت کی نظر میں گرچہ  نا پسندیدہ عمل ہے لیکن اگر دے دے تو واقع ہو جاتی ہے جیسے اگر کسی نے کسی کی زمین پر قبضہ کر لیا تو اس کے لیے اس پر نماز پڑھنا ناجائز ہے لیکن اگر پڑھ لیا تو نماز ہو جائے گی، خلاصہ یہ ہوا کہ عمل تو ناجائز ہے لیکن اس عمل کا وقوع اور وجود ہوجاتا ہے۔
سرکار کے قانون سے یہ نقصان ہوگا کہ طلاق دینے والا جیل میں چلا جائے گا  اور اس کے بال بچے بے یار و مددگار رہ جائیں گے؛ کیوں کہ جیل سے تو وہ اس کی کفالت نہیں کر سکتا اور نہ لڑکی کے گھر والے دوسری جگہ شادی  دلا سکتے ؛کیوں کہ سرکار کی نظر میں نکاح ابھی باقی ہے اور جیل سے نکلنے کے بعد وہ اپنی بیوی سے مل نہیں سکتا؛ کیوں کہ شریعت کی نظر میں وہ اس کی بیوی نہیں رہی، لیکن سرکار کی نظر میں چونکہ وہ اس کی بیوی ہے اس لیے دونوں کو میاں بیوی والے تعلقات رکھنے پڑیں گے جس سے ایک Systematically     زناکاری شروع ہوجائے گی، اور بھی دوسرے نقصانات ہیں جیسے PPC سے محرومی، نوکری  ہے تو اس سے محرومی؛کیوں کہ اس کا کیس سیول کورٹ میں نہیں بلکہ Criminal Court میں چلے گا اور اس کے نقصانات سے سبھی واقف ہیں۔
          در اصل یہ شریعت میں مداخلت کی منظم کوشش ہے اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو دوسرے مسائل میں اسی کو دلیل بناتے ہوئے دخل اندازی شروع کر دیں گے۔
ان تمام باتوں اور دوسری وجوہات کی بنا پر علماء کرام اور  ایجوکیٹیڈ طبقہ بلکہ ہر باشعور مسلمان اس کا ورودھ اور مخالفت کر رہے ہیں، اب اس ورودھ میں ان کی کیا  نیت ہے؟ اسے اللہ پر چھوڑ دیجئے۔ آج کل ہم بعض لوگوں کو اپنے ذہن میں  Upload کر دیتے ہیں پھر  Uploaded Person  کی کہی ہوئی تمام باتوں کو نا قابل قبول گردانتے چلے جاتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ خود تحقیق کرکے یا کسی دوسرے سے معلومات حاصل کرکے فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ جو کہہ رہا ہے صحیح ہے یا غلط ،اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے ___آں محترم نے کئی جگہ علمائے کرام کو دین کے ٹھیکیدار کہہ کر اپنے مضمون کے اسٹیپ کو آگے بڑھایا ہے،  اس سلسلے میں مجھ ناچیز کا خیال یہ ہے کہ علماء کرام  دین کے ٹھیکیدار نہیں بلکہ چوکیدار ہیں جو سب کو ہونا چاہئے تھا، اور اس کی دو وجہ ہیں ____ایک یہ کہ علماء  کرام کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انبیاء کا وارث فرمایا ہے "العلماء ورثة الأنبياء" (ابوداؤد:3641)اس کا مطلب یہ نہیں کہ علماء کو انبیاء کرام سے کوئی جائداد وغیرہ ملے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انبیاء کرام کے مشن کو آگے بڑھائے اور اس کا ایک حصہ "امر بالمعروف اور نھی عن المنكر" ہے یعنی اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا____دوسری وجہ ایک حدیث ہے " مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ "(مسند أحمد حدیث نمبر:11460، جلد 18 صفحہ 42)  ____اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی چیز کو دیکھے جو شریعت میں ناپسندیدہ ہو ، چاہیے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے اگر اس کی قدرت نہ ہو تو زبان سے کہہ دے کہ یہ برا ہے ایسا نہ کرو ، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا سمجھے،اور یہ ایمان کا سب سے کم  درجہ ہے۔
اس حدیث میں اپنی طاقت کے لحاظ سے برائی کے خلاف ایکشن لینے کا حکم کیا گیا ہے اور شریعت میں دخل اندازی بہت بڑی برائی ہے، اب ہم مسلمان ہاتھ سے نہیں تو زبان سے تو اس کا ورودھ کر ہی سکتے ہیں لہذا اس میں حصہ لینا ہر ایک کا فریضہ بنتا ہے کیونکہ ہر ایک مسلمان اس حدیث میں مخاطب ہے لہذا ہر ایک کو دین کا چوکیدار بننا چاہیے۔
دعا کیجئے اللہ تعالٰی ہم لوگوں پر رحم و کرم کا معاملہ فرمائے دین کا داعی بن کر جینے کی توفیق عطا فرمائے!

      Lastly I hope that you haven't posted it deliberately but you are an educated person you should be careful about what you post. Don't mind I said what I should have said according to The Shari'ah and I didn't take an aim at you, I am very excited and pleased that my brother (you) posts the things those belong to teaching of Islam and try to make understand others. May Allah give us Taufeeq to follow the teachings of Islam in all walks of life.
       Your youngest brother____A Barkat Qasmi


{در اصل یہ ایک جوابی تحریر  ہے}

No comments:

Post a Comment